Skip to content
برطانوی حکومت خالص امیگریشن (Net Migration) کو کم کرنے کی وسیع تر کوششوں کے تحت گریجویٹ ویزا پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے پر غور کر رہی ہے، جس کے باعث ہوم آفس اور ڈیپارٹمنٹ فار ایجوکیشن کے درمیان کشیدگی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، مجوزہ اصلاحات کے تحت بین الاقوامی طلباء کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ میں قیام کے لیے گریجویٹ سطح کی ملازمت حاصل کرنا ضروری ہوگا۔
ہوم آفس نے مبینہ طور پر ڈیپارٹمنٹ فار ایجوکیشن کی اس پالیسی پر مخالفت پر مایوسی کا اظہار کیا ہے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس نے یونیورسٹیز یو کے (Universities UK) کو اس تبدیلی کی عوامی مخالفت کرنے پر اکسایا ہے۔
ہوم آفس کے ایک اہلکار نے فنانشل ٹائمز کو بتایا:
“ہمیں وزیرِاعظم کی جانب سے خالص امیگریشن کو کم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ یہ واقعی مایوس کن ہے کہ تعلیم کا محکمہ یونیورسٹیز یو کے کو اس کی مخالفت پر آمادہ کر رہا ہے۔”
یہ گریجویٹ ویزا پالیسی 2021 میں متعارف کروائی گئی تھی، جو بین الاقوامی طلباء کو گریجویشن کے بعد دو سال تک برطانیہ میں قیام کی اجازت دیتی ہے، خواہ وہ ملازمت میں ہوں یا نہیں۔ تاہم، مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی کی تحقیق کے مطابق، اس ویزا پر موجود 60 فیصد سے زائد گریجویٹس ایک سال بعد بھی £30,000 سالانہ سے کم آمدنی کما رہے تھے، جو ایک عام گریجویٹ کی متوقع تنخواہ سے کم ہے۔
دوسری طرف، ڈیپارٹمنٹ فار ایجوکیشن نے خبردار کیا ہے کہ اس ویزا راستے کو محدود کرنے سے پہلے سے مالی دباؤ کا شکار یونیورسٹیز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یونیورسٹیز یو کے کی چیف ایگزیکٹو ویویئن اسٹرن نے کہا کہ اس اسکیم کو کم کرنا “دیوانگی” ہوگی، کیونکہ صرف ایک بیچ کے بین الاقوامی طلباء برطانوی معیشت میں سالانہ £40 بلین کا حصہ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دو سال کا ویزا طلباء کو تجربہ حاصل کرنے اور نوکری تلاش کرنے کا وقت دیتا ہے۔
ہوم آفس نے اپنی اصلاحاتی مہم کی حمایت میں 2024 کے اعدادوشمار کا حوالہ دیا، جن کے مطابق 40,000 پناہ گزین درخواست گزاروں نے پہلے یو کے ویزے حاصل کیے تھے، جن میں تقریباً 40 فیصد سابقہ طالبعلم ویزا ہولڈرز تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان میں کچھ کیسز میں دھوکہ دہی بھی شامل ہے، جہاں افراد طالبعلم اور گریجویٹ ویزا سے پناہ گزین درخواستوں میں منتقل ہو جاتے ہیں اور بعد میں حکومت کی فراہم کردہ رہائش حاصل کر لیتے ہیں۔
لیبر پارٹی کی نئی حکومت، جس کی قیادت وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر کر رہے ہیں، آئندہ ماہ امیگریشن پالیسی پر ایک وائٹ پیپر جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس میں گریجویٹ ویزا اسکیم میں ممکنہ تبدیلیاں مرکزی نکتہ ہوں گی۔
سابقہ کنزرویٹو حکومت، جس کی سربراہی رشی سونک کر رہے تھے، نے اعلیٰ تعلیم پر اثرات کے پیش نظر صرف معمولی تبدیلیوں پر اکتفا کیا تھا، لیکن نئی تجاویز میں زیادہ سخت شرائط متعارف کروائے جانے کا امکان ہے۔
ایک حکومتی ترجمان کا کہنا تھا:
“ہوم آفس اور ڈیپارٹمنٹ فار ایجوکیشن قریبی رابطے میں ہیں تاکہ ایک ایسے شواہد پر مبنی لائحہ عمل کو یقینی بنایا جا سکے جو امیگریشن پالیسی کو تعلیم اور مہارتوں سے ہم آہنگ کرے، اور مقامی ٹیلنٹ کو پس پشت ڈال کر امیگریشن پر انحصار سے گریز کرے۔ ہم بین الاقوامی طلباء کو اپنی عالمی معیار کی اعلیٰ تعلیم کا اہم حصہ مانتے ہوئے خوش آمدید کہتے رہیں گے۔”
دوسری جانب، ڈیپارٹمنٹ فار ایجوکیشن کا کہنا ہے کہ اسے ہوم آفس کے ساتھ مجوزہ تبدیلیوں پر کسی قسم کے اختلافات کا علم نہیں۔