کراچی بورڈ کے چیئرمین امتحانی نتائج کے تنازعے پر برطرف


کراچی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن (BIEK) کے چیئرمین امیر قادری کو انٹرمیڈیٹ کے امتحانی نتائج کے تنازعے کے باعث برطرف کر دیا گیا ہے۔ ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق یہ فیصلہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی منظوری سے کیا گیا، جو اس شعبے کے ذمہ دار ہیں۔
اسی حوالے سے شارف علی، جو کراچی بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (BSEK) کے چیئرمین ہیں، کو بی آئی ای کے کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے، جب تک کوئی مزید حکم نہ آ جائے۔ اس دوران، امیر قادری سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی غیر مجاز غیر ملکی سفر کی وضاحت فراہم کریں۔
یہ تنازعہ اس وقت اٹھا جب انٹرمیڈیٹ کے پری انجنئرنگ اور پری میڈیکل امتحانات میں شریک طلباء میں سے بہت سوں کو متعدد مضامین میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے بورڈ کے پاس بڑی تعداد میں اسکروٹنی فارم جمع کرائے۔ متاثرہ طلباء نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ ان کے نتائج جان بوجھ کر خراب کیے گئے تاکہ وہ کم نمبروں کے ساتھ کامیاب ہوں۔ وہ طلباء جو میٹرک کے امتحانات میں پہلے ہی 80 سے 85 فیصد نمبر حاصل کر چکے تھے، انٹرمیڈیٹ امتحانات میں 50 فیصد سے کم نمبر حاصل کرنے کی شکایت کر رہے تھے۔
اس معاملے پر احتجاج شروع ہو گیا ہے کیونکہ طلباء کا کہنا ہے کہ ان کے خواب تباہ ہو گئے ہیں اور نتائج میں خرابیاں موجود ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایسا مسئلہ سامنے آیا ہو۔ گزشتہ سال بھی ایک ایسا ہی تنازعہ ہوا تھا، جس میں بڑی تعداد میں طلباء کو “فیل” قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک تین رکنی کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں نتائج میں سنجیدہ بے ضابطگیاں پائی گئیں، خاص طور پر انگریزی، حیاتیات، کیمسٹری اور فزکس جیسے مضامین میں۔
کمیٹی کی تحقیقات میں کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کے آٹھ افسران کو نتائج میں چھیڑ چھاڑ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ سابق چیئرمین ڈاکٹر سعیدالدین اور نصیم میمن سمیت دیگر افسران کو ان بے ضابطگیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ سندھ حکومت نے اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمے درج کرنے کے لیے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کو ہدایات دی تھیں۔
یہ حالیہ واقعہ کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کی کارروائیوں پر مزید سوالات اٹھا رہا ہے، اور طلباء اور ان کے خاندانوں نے امتحانی عمل میں احتساب اور شفافیت کا مطالبہ کیا ہے۔ امیر قادری کی برطرفی کو ان دیرینہ مسائل کے حل کی طرف ایک قدم سمجھا جا رہا ہے، حالانکہ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ بورڈ کی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *